Hijra, Marriage and the Law

On 24 May, 2010, in Peshawar, Rani, Malik and 45 other people were arrested for holding a wedding ceremony. Rani is a known Hijra (third gender/trans woman) while Malik is a cisgender man who also had two previous marriages. Both Rani and other prominent members of the Hijra community denied the fact that a wedding ceremony was taking place, and said that the function was in fact a “salgirah” which is an annual function that is celebrated by a Hijra or Zanana where other members of the community are also invited.

The police’s story is that station house officer Shahzad, while on patrol in the area, received information that a wedding ceremony was taking place between a Hijra and a man. On receiving this information he raided Rani and Malik’s residence along with other police officers and arrested Rani, Malik and all the guests present there. They also took into custody the clothes belonging to both Rani and Malik, musical instruments found at the scene and other items including a Kalashnikov. Continue reading “Hijra, Marriage and the Law”


آسکر وائلڈ کے نام

آج ایک بار پھر
مجھ سے میری شناخت کی بابت
دریافت کی گئی ہے
گویا مجھ سے میرے ہونے کی
گواہی مانگی گئی ہے
اور میں خود پر آئد فردِ جرم
کو سن کر اب
بیٹھا سوچ رہا ہوں
کہ کیسے خود کا دفاع کروں
کیونکہ جواب بہت طویل ہے
یا یوں کہو کہ
میری کہانی بہت پرانی ہے
جس میں نہ تو کسی راجا کو رانی ے ملنا تھا
اور نہ ہی کسی چڑیل کو پری سے جلنا تھا
یہ تو فقط حقیقت ہے
میری حقیقت
جو کہ دلچسپ نہ سہی
مگر سچی ضرور ہے
ماضی کی سڑک پر جب چلنا شروع کرتا ہوں تو
مچھے بچپن کے وہ معصوم دن نظر آتے ہیں
جب تتلیوں، جگنوؤں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے
مجھے خبر ہی نہ ہوئی کہ
یہ کام میرے کرنے کے نہیں تھے
میرے لیے تو موزوں کچھ اور ہی کھیل تھے
جو کبھی مجھے راس ہی نہ آئے
میرے لڑکپن کی وہ شامیں
جب میں کھلے آسمان تلے
گھنٹوں بیٹھا بھیتر کی گتھلیاں
سلجھانے کی کوشش کرتا رہتا تھا
مگر وہ کبھی بھی سلجھ نہ سکیں
پھر وہ نوجوانی کی راتیں بھی آئیں
جب میں لمبے لمبے سجدوں میں
خود آگاہی کے واسطے
اس کا در کھٹکھٹاتا رہتا تھا
جس کے بارے میں مشہور ہے
کہ وہ سب کی سنتا ہے
میں عفوانِ شباب کی حدٔت کا مارا
بے صبرا انسان اُس سے
لڑتا، جھگڑتا، کُڑتا، مرتا رہتا
اور بھلا کر بھی کیا سکتا تھا
شب و روز اسی ضد میں کٹنے لگے
مگر اندر کی آگ تھی کہ
کسی طور بُجھتی ہی نہ تھی
مگر جب میرا سارا وجود جل کر خاکستر ہوا
اور مٹھی بھر خاک میرے ہاتھ آئی
تب یہ عقد مجھ پہ کھلا
کہ یہی خاکِ شفا تو مجھے درکار تھی
اور پھر میں نے سچ بولنے کا فیصلہ کر لیا
میں چاہتا تو اپنی جبلت کو جھوٹ کے
رنگین پیراہنوں میں چھپا لیتا
اُن سُرخاب کے پروں کا تاج سر پہ سجا لیتا
جو مجھے سب میں مقبول کر دیتے
مگر میں ایسا نہ کر سکا
کیونکہ میرے خمیر میں
سچ کی مقدار کچھ زیادہ ہی تھی
سچ ـ ـ ـ جس کا راستہ بڑا کٹھن ہے
جس پر چلنے سے تن پر سنگ باری بھی ہوتی ہے
اور پیروں میں آبلے بھی پڑتے ہیں
مگر مجھے کوئی خوف نہ رہا تھا
مجے معلوم ہے کہ
رذدیلوں اور دھتکارے ہوؤں کو
بولنے کا حق بھی نہیں ملتا
مگر میں پھر بھی اتنا ضرور کہوں گا
کہ میری تخلیق بھی اُسی نے کی ہے
جس نے باقی سب کو بنایا ہے
آج بے شک میں ایک سوال ہوں
موردِ الزام ہوں، حسرت و ملال ہوں
مگر مجھے اتنا یقین ہے کہ
جب بھی اس کا انصاف ہو گا
میرا شمار ہو گا
میرا شمار ہو گا ـ ـ ـ